ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہےدیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہےکل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گاروکھی سوکھی جو مل جائے، شکر کرو تو بہتر ہےکل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہونام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہےکیا جانے کیا رُت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیںاب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہےکپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیےرات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے
No comments:
Post a Comment