Tuesday

آج تو بے سبب اداس ہے جی


آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی

آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی

اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی

No comments:

Post a Comment