Tuesday

تو یہ بھی لکھنا

 تو یہ بھی لکھنا

 

 اُداسیوں کا سبب جو لکھنا

 تو یہ بھی 

 کے چاند، تارے، شہاب آنکھیں بدل گئے ہیں 

 وہ زندہ لمحے جو تیری راہوں میں 

 تیرے آنے کے منتظر تھے

 وہ تھک کے سایوں میں ڈھل گئے ہیں 

 وہ تیری یادیں خیال تیرے، وہ رنج تیرے ملال تیرے 

 وہ تیری آنکھیں، سوال تیرے 

 وہ تم سے میرے تمام رشتے بچھڑ گئے ہیں، اُجڑ گئے ہیں

 اُداسیوں کا سبب جو لکھنا

 تو یہ بھی لکھنا

 لرزتے ہونٹوں پہ لڑکھڑاتی دعا کے سورج

 پِگھل گئے ہیں 

 تمام سپنے ہی جل گئے ہیں 

 

 فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment