تمہارا دھیان باقی رہ گیا ہے
یہی سامان باقی رہ گیا ہے
دعا کی آخری حد پر کھڑا ہوں
درِ بے جان باقی رہ گیا ہے
وفا کے شہر سے سب جا چکے ہیں
دلِ نادان باقی رہ گیا ہے
کسی نے مڑ کے دیکھا تک نہیں ہے
کوئی مہمان باقی رہ گیا ہے
نکل جا شہر میں اور ڈھونڈ کے لا
اگر انسان باقی رہ گیا ہے
کسی بھی چیز کا امکاں نہیں ہے
یہی امکان باقی رہ گیا ہے
اُسے کب ہے گوارا اِس قدر بھی
جو سائبان باقی رہ گیا ہے
مسافر جا چکے ہیں سارے دل کے
مگر ارمان باقی رہ گیا ہے
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment