Thursday

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

 الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا


عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند

یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا


حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی

ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا


ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا


سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں

بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا


سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی

کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا


کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام

کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا


شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں

جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا


کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے

آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا


یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے

رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا


صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی

رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا


ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے

بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا


کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے

استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا


ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی

سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا


میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا


No comments:

Post a Comment